کسی بھی چیز کی خواہش کرنے سے قبل اپنی مالی حیثیت کو نگاہ میں رکھیں اور اپنی زندگی کو ذاتی خواہشات کی تکمیل کی حد تک محدود نہ رکھیں۔ شادی کے بعد انسان کی زندگی کئی خانوں میں بٹ جاتی ہے اور ان سب کا خیال رکھنا ازدواجی زندگی کو بھی خوشگوار بناتا ہے
ایک کامیاب گھر… مرد اور عورت یعنی میاں اوربیوی کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ بنیادی ستون ہیں جن پر گھر کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ خدانخواستہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنا کردار ادا کرنا چھوڑ دے تو عمارت کے قائم رہنے کے امکانات ختم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا اداروں کا اپنے فرائض اور ذمے داریوں کے معاملے میں حساس اور ذمے دار ہونا ازحد ضروری ہے۔ آئیے! چند تجاویز اپناتے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ایک کامیاب گھر تشکیل دے سکتے ہیں۔
تحمل و برداشت سے کام لینا:شادی شدہ زندگی میں سب سے پہلے جس چیز سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے وہ ہی دو الفاظ ہیں مرد ہو یا عورت دونوں کوایسی بہت سی چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کے مزاج کے برعکس ہوتی ہیں لہٰذا خود میں تحمل و برداشت کا مادہ پیدا کریں کیونکہ آپ خلاف مزاج بات پرغصہ ہوتی ہیں لہٰذا خود میں تحمل و برداشت کا آمادہ پیدا کریں کیونکہ آپ خلاف مزاج بات پر جس قدر غصے کا اظہار کریں گے معاملات اسی قدر پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ کو گھر بچانا ہے اور کامیاب ازدواجی زندگی گزارنی ہے تو تحمل اور برداشت کام لینا پڑے گا۔ خواہ یہ معاملہ گھر کے کسی بھی فرد سے متعلق کیوں نہ ہو۔
پیار محبت سے بات منوائیں:بعض مردوں اور بعض عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر کام میں حکم چلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں اگر آپ میں بھی اس طرح کی کوئی عادت ہے تو یقین کیجئے اس کے نقصانات کا آج نہیں تو کل آپ کو سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا اس عادت سے فوری چھٹکارا حاصل کریں۔ یاد رکھیں! عام حالات میں پیار کی زبان سب سے زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے۔ اپنی بات کا اظہار شیریں لہجے میں کریں اور اس کو منوانے کیلئے بھی اسی طرح کا اظہار کریں کہ دوسرا اس کا یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ اس بات کو ماننے کیلئے حکم دیا جارہا ہے۔ یاد رکھیں انا ہر انسان میں ہوتی ہے اور حکمیہ لہجہ دوسرے فریق کو سرکشی پر بھی آمادہ کرسکتا ہے۔ یہ بات اگر میاں اور بیوی کے درمیان ہو تو پھر اس سے کشیدگی ہی جنم لیتی ہے۔ لہٰذا کشیدگی سے بچنے کے لیے اور بات منوانے کیلئے لہجہ ہمیشہ شیریں اور نرم ہی رکھیں۔معذرت کرنے میں پہل کریں: انسان خطا کار ہے اور میاں بیوی بھی انسان ہی ہیں لہٰذا اگر میاں بیوی کسی معاملے میں الجھ جائیں اور بات ناراضگی کی حد تک پہنچ جائے تو غلطی پر معذرت کرنے کو اپنی تحقیر نہ جانیں۔ معذرت کرنے سے کبھی دوسرے فرد کی نظر میں آپ کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر بغیر قصور کے بھی آپ صلح کرنے میں پہل کرتی ہیں تو یہ بھی آپ کے بڑے پن کا ثبوت ہے اور ایسی بات نہیں کہ شوہر یا گھر کا کوئی فرد آپ کے اس بڑے پن کو محسوس نہ کرے یا نظرانداز کرجائے۔خواہشات کے غلام نہ بنیں: کسی بھی چیز کی خواہش کرنے سے قبل اپنی مالی حیثیت کو نگاہ میں رکھیں اور اپنی زندگی کو ذاتی خواہشات کی تکمیل کی حد تک محدود نہ رکھیں۔ شادی کے بعد انسان کی زندگی کئی خانوں میں بٹ جاتی ہے اور ان سب کا خیال رکھنا ازدواجی زندگی کو بھی خوشگوار بناتا ہے۔ صاف سی بات ہے کہ اگر ہم دوسروں کیلئے کچھ نہیں کریں گے تو ان سے کیسے توقع رکھیں گے کہ وہ بھی ہمارے لیے کچھ کریں گے لہٰذا ’’کچھ دو کچھ لو‘‘ کے اصول کے تحت زندگی گزارنے کا طریقہ اپنائیں۔تھوڑے میں خوش رہنا سیکھیں: خوب سے خوب تر کی تلاش نے آج کے انسان کا سکون چھین لیا ہے اکثر گھرانے اسی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں کہ وہ قناعت پسند نہیں ہوتے۔ قدرت نے آپ کو جس قدر نوازا ہے اسی سے خوش اور مطمئن رہنے کی کوشش کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق ہی اخراجات کریں۔ قناعت پسندی جو سکون اور آسودگی عطا کرتی ہے وہ اسراف اور بغیر ضرورت کی چیزوں کی خریداری سے بھی نہیں ملی۔
میانہ روی اختیار کریں: میانہ روی زندگی کے ہرمعاملے میں کامیابی کی کنجی ہے اور کسی بھی چیز کی زیادتی ہمیشہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا کوئی بھی معاملہ ہو میانہ روی ضرور سامنے رکھیں۔ جب بھی آپ کوئی ایسا کام کریں جو آپ کے وسائل سے زیادہ ہو تو پریشانی ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یوں گھر کی فضا ناخوشگوار ہوجائے گی جس سے بچاؤ کا واحد راستہ میانہ روی ہے۔سب کو وقت دیں: کاروبار زندگی کو چلانے کے لیے یہ نہ ہو کہ آپ صرف کاروبار یا دفتر کے ہوکر رہ جائیں‘ گھر کے دیگر افراد بھی آپ کی صحبت‘ توجہ اور وقت کے طالب ہوتے ہیں لہٰذا بچوں‘ بڑوں اور بزرگوں سب کوجتنا ہوسکے وقت دیں۔ ان کے دُکھ سُکھ بانٹیں اور ان کی خوشیوں میں شریک ہوں۔بچوں میں امتیاز نہ برتیں: اکثر گھروں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ ماں باپ بعض بچوں کو ایک دوسرے پر فوقیت دیتے ہیں ایسا مت کریں اس سے نظرانداز شدہ بچوں میں باغیانہ جذبات جنم لیتے ہیں اور فوقیت حاصل کرنے رات بچے لاڈپیار سے بگڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کی تربیت کیلئے ضروری ہے کہ ان میں امتیاز نہ برتیں اور سب بچوں کو یکساں پیارو محبت کا برتاؤ کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں